حضرت نور شاہ قلندر،تلائی اور میلہ
حضرت نور شاہ قلندر ؒ‘،تلائی اور میلہ
(تاریخ کے تناظر میں)
اسلام کی آمد کے تقریبا ً3سو سال بعد بر صغیر پاک وہند میں صوفیاء کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جنہوں نے انسانیت کو مذہب پر ترجیح دی‘لوگوں کو مساوات کا درس دیا اور مذہب کو انسانی بھلائی سے تعبیر کیا۔انسانیت کے خیر خواہ جن صوفیاء کرام نے مذہبی منافرت اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں کو اخوت و محبت کا درس دیا ان برگزیدہ شخصیات میں حضرت داتا گنج بخش ؒ‘بہاؤالدین زکریا ؒ‘ بابا مسعود گنج شکر ؒ ‘خواجہ معین الدین اجمیری ؒ ‘اور لعل شہباز قلندر کے نام قابل زکر ہیں۔علاوہ ازیں بے شمار اولیا ء اللہ نے بر صغیر میں دین اسلام کی تبلیغ کے چراغ روشن کیے۔اور اپنی انسان دوستی‘رویے اور کردار سے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا‘جس کی وجہ سے ہندوستان میں اسلامی انقلاب آیا۔یہ ان بزرگوں کے حسن ِسلوک اور انسان دوستی کا نتیجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں غیر مسلم قومیں کلمہ ِ حق پڑھ کے دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں۔یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان صوفیاء کرام نے بغیر تلوار اور تیر و تبر کے غیر مسلموں کے دلوں میں فتح کے جھنڈے گاڑھ دیئے۔‘اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ِ راست پر لایا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کیا۔
؎ نہ تخت و تاج میں ہے نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد ِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
وادی ِ سندھ (موجودہ سرائیکی خطہ)میں جن اولیاء اللہ نے بنی ِ نوع انسان کی بھلائی اور رہنمائی کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر رکھیں تھیں ان میں ایک نمایاں نام حضرت نور شاہ قلندرؒ کا بھی ہے۔جن کا دربار تھل کے جنوبی ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی نواحی بستی تلائی نور شاہ میں واقع ہے۔آپ کا شجرہ نسب پس پردہ ہے‘چونکہ آپ کی آمد سے لیکر 1985ء تک بستی تلائی نور شاہ کو ملانے والی سڑک پختہ نہ تھی اور نہ ہی یہاں سے ریلوے لائن کا گزر ہوا۔جس کی وجہ سے اس مردِ قلندر کی طرف کسی مؤرخ‘محقق کی توجہ نہ ہو سکی۔بہر حال محکمہ مال کی اولین تقسیم اراضی کے ریکارڈ میں آپکا نام نور شاہ ؒ فقیر درج ہے اور آپکے حوالے سے مزید لکھا گیا ہے کہ یہاں (موجودہ بستی تلائی نور شاہ) میں سب سے پہلے حضرت نور شاہ ؒفقیر نے خلق خدا کی پانی کی طلب پوری کرنے کیلئے ایک کنواں احداث کرایا تھا اور خود بھی یہاں رہائش پزیرہو گئے تھے۔یہ کنواں نور شاہ والا کہلانے لگا
‘ گرد و نواح کے لوگ بھی اسی کنواں پر آکر آبادہونے لگے۔
علاقہ تلائی نور شاہ کی وجہ تسمیہ
آپ کی آمد سے پہلے یہ علاقہ تلائی چانڈیہ کے نام سے مشہور تھا۔ کیوں کہ یہاں چانڈیہ بلوچ قوم کثرت سے آباد تھی۔مگر آپکی آمد کے بعد اس علاقہ کا نام تلائی چانڈیہ کے بجائے تلائی نور شاہ مشہور ہو گیا۔پھر جب کنویں کھودنے کا رواج عام ہو گیا تو سب لوگ اپنے اپنے چاہات احداث کر کے یہاں سے چلے گئے۔ لیکن سمراء قوم کے کچھ لوگ یہاں آباد تھے جو چاہ نور شاہ والا کو چھوڑ کر کسی اور جگہ تبدیل نہ ہوئے۔وہ کہتے ہیں نہ کہ ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“ پھر سمراؤں نے وقت اور ضرورت کے پیش نظر کوزہ گری کا پیشہ اختیار کر لیا اور کمہار کہلانے لگے۔یہ لوگ بابا نور شاہ ؒ قلندر کے عقیدت مند اور خدمت گزار تھے جنہوں نے آخری دم تک آپکی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔شروع ہی سے آج تک خاد مان کا سلسلہ اسی خاندان سے چلا آرہا ہے جس کے موجودہ مسند نشین مخدوم فدا حسین ہیں۔یہ بابا نور شاہ ؒ قلندر کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ یہ قوم آج تک اس بستی میں شاد و آباد ہے۔
حضرت نورشاہؒ کا شجرہِ نسب
حضرت نور شاہ ؒ قلندر بخاری سید تھے۔آپ کے آباؤ اجداد تبلیغ اسلام کیلئے بخا را (افغانستان) سے تشریف لائے تھے۔آپ کا اصل نام سید نورمحمد شاہؒ بخاری تھا۔وہ حافظ قرآن اور دینی علوم پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔آپ کا زمانہ آج سے تقریبا ً3سو سال پہلے معین کیا جاتا ہے۔ یعنی آپ حافظ جمال اللہ ملتانی سے پہلے کے بزرگ تھے۔اور ایک متفقہ روایت کے مطابق آپ”کنوارے“یعنی غیر شادی شدہ تھے اور کبھی شادی کی خواہش بھی نہ کی تھی‘ وہ آزاد طبع‘ قلندر مزاج بزرگ تھے۔بھلا ایسے پرہیز گار درویش کا تاَہُّل یعنی شادی کرنے سے کیا تعلق؟کئی مرتبہ عقیدت مندوں کی طرف سے شادی کی پیش کش کی گئی‘مگر آپ نے قبول نہ کی۔وہ دن رات تبلیغ اسلام اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ِ راست پر لانے میں مصروف عمل رہتے تھے۔
بابا نور شاہ ؒ قلندر کے حوالے سے مذکور رویت:
بابا نور شاہ ؒ قلندر کے حوالے سے مذکور ہے کہ جہاں پر اب آپ کا دربار شریف موجود ہے اس سے مشرق کی جانب (قریب) ایک چھتری نما (جال)کا درخت تھا‘جس کے تنے تراش کر آپ نے زمین کے فرش پر اپنی قیام گاہ مقرر کر رکھی تھی۔موسم سرد ہوتا یا گرم‘بارش ہوتی یا گرم لو کے بھبوکے‘مگر آپ نے وہاں سے اپنا بستر تبدیل نہ کیا اور ساری عمر اسی چھتری نما درخت کے نیچے گزار دی۔
”درویش ہر کجا کہ شب آمد سرائے اوست“
آپ کی وہ جھونپڑی کوئی عام جھونپڑی نہ تھی بلکہ راہ حق کے سالکین کیلئے وہ ایک سرائے کا درجہ رکھتی تھی۔ایک طرف وضو کیلئے استاوا اور پانی سے بھرا ہوا مٹکا ہر وقت ان کے پاس موجود ہوتا تھا۔ آنے جانے والے مسافر پانی پیتے‘سستاتے اور آپ کے اس نیک جذبے اور پارسائی کا اعتراف کرتے۔قلندر کی جھونپڑی میں جو بھی آتا وہ دلی راحت و سکون محسوس کرتا گویا آپ کی فقیری کے چرچے آر پار ہونے لگے‘عقیدت مندوں کی آمد کا سلسلہ روز بروز بڑھتا چلا گیا۔آپ کی دانش اور علمی شہرت سن کر بڑے بڑے عالم‘ فاضل آپ کے پاس آتے اور زانوئے ادب تہہ کرتے تھے۔
آپکے ارادت مند اہل دانش ہندو بھی تھے:
آپ کے ارادت مندوں میں اہل دانش ہندو بھی شامل تھے۔بابا نور شاہؒ قلندر کے حوالے سے جو روایات زبان زد عام ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صوفی ازم کے مبلغ تھے۔مثلا ً ایک روایت جو میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھی تھی۔کہ ایک مرتبہ ایک ہندو عالم آپ کے پاس آیا اور دیر تک مذہبی موضوع پر تبادلہ خیال کرتا رہا۔جب وہ واپس چلا گیا تو پاس بیٹھے ہوئے ایک عقیدت مند نے عرض کی کہ حضرت!آپ ہندو مذہب میں اتنی دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟آپ نے فرمایا میں ہندو مذہب میں انسانیت کی روح تلاش کرتا ہوں جو مجھے کہیں نظر نہیں آتی۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ ایک معصوم ہندنی کو کس قدر ظالمانہ رسم ”ستی“ کی نذر کیا جاتا ہے۔مجھے اس غیر انسانی رویے سے سخت نفرت ہے۔جبکہ ستی بچاری سے مجھے انتہائی ہمدردی ہے۔حضرت علی ہجویری ؒ (داتا گنج بخش ؒ) کا قول ہے کہ عارف عالم بھی ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ عالم بھی عارف ہو۔بابا نور شاہ ؒ قلندر ایک صاحب معرفت بزرگ تھے‘ولایت میں وہ قلندر کے منصب پر فائز تھے۔
دربار حضرت نور شاہ ؒ قلندر:
ایک عام روایت کے مطابق دربار حضرت نور شاہ ؒ قلندر آج سے دو سوا دو سو سال قبل کسی مغل باد شاہ نے تعمیر کرایا تھا‘جس کی چھت اس زمانے عمدہ لکڑی سے آراستہ کی گئی تھی جو 1975ء تک اپنی اصلی حالت اور زیب و زیبائش سے بحال رہی۔پھر 1978ء میں سمراء برادری خصوصا ًحاجی غلام محمد (مرحوم) نے دربار نور شاہؒ قلندر نئے سرے سے تعمیر کرایا جو اسلامی طرزتعمیر کے مطابق خوبصورت گنبد کے ساتھ تعمیر کیا گیا ہے جس سے ارد گرد کا ماحول روحانی تازگی محسوس کرتا ہے۔اب یہ دربار 1982ء سے محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہے۔
لفظ ”تلائی“ کیا ہے:
لفظ ”تلائی“ کے بارے میں اکثر لوگ سوال کرتے رہتے ہیں‘ کیونکہ انکے نذدیک اس لفظ کی املا ”طلائی“ یعنی ”ط‘‘ سے لکھی جانی چاہئے لیکن میں اسکی وضاحت کر دوں کہ لفظ ”تلائی“ تالاب کی تصغیر ہے‘جس کے معنی چھوٹے تالاب کے ہیں‘چونکہ زمانہ قدیم میں یہاں برساتی پانی کے دو بڑے بڑے تالاب تھے‘جن کو سرائیکی میں ”ٹوبھے“ کہتے ہیں۔ان میں سے ایک ٹوبھا دربار نور شاہ ؒ کے قریب مشرق کی جانب اور دوسرا دربار سے جنوب مشرق کی جانب نصف کلو میٹر کے فاصلہ پر تھا۔جہاں برسات کے موسم میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا اور لوگ اپنے مال مویشیوں سمیت یہاں آکر عارضی بسیرا کرتے تھے۔جنوبی ٹوبھے کا نام تلائی چندرڑ اور شمالی ٹوبھے کا نام تلائی چانڈیہ تھا۔جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ شمالی ٹوبھے کا نام اب تلائی چانڈیہ کے بجائے تلائی نور شاہ مشہور ہے اور موضع کا نام بھی تلائی نور شاہ ہے۔جب کہ جنوبی ٹوبھا اسی پرانے نام ”تلائی چندرڑ“ سے موسوم چلا آرہا ہے‘اور موضع بھی تلائی چندرڑ کے نام سے مشہور ہے یاد رہے کہ ان تالابوں کا اب نشان تک باقی نہیں ہے لیکن ان کا نام آج بھی دو مختلف مواضع کے ناموں کے ساتھ نتھی ہے۔
(1)موضع تلائی نور شاہ:
جس کی بڑی آبادی کو بستی نور شاہ کہتے ہیں ۔
(2)موضع تلائی چندرڑ:
جسکی مرکزی آبادی بستی تلائی کہلاتی ہے ۔
میلہ نور شاہؒ:
جہاں تک حضرت نور شاہ ؒقلندر کے میلہ کا تعلق ہے تو پرانے زمانے یعنی شروع میں یہاں ہر سال اونٹوں کی منڈی لگتی تھی جو رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی میلے کی شکل اختیار کر گئی۔اب یہ میلہ ہر سال ”پوہ“ ماہ کے دوسرے ہفتے سے شروع ہو کر تیسرے ہفتے کے اختتام تک جاری و ساری رہتا ہے۔جبکہ چاند کی 15اور 16تاریخ کو اس میلے کی بہار عروج پر ہوتی ہے۔جس میں اونٹوں کی کشتیاں‘گھڑ دوڑ‘نیزہ بازی‘مڑیچے اونٹوں کا ناچ‘پہلوانوں کا دنگل‘کھیڈ‘کبڈی اور وٹا اٹھانے جیسے زور آزمائی کے روایتی کھیل دیکھنے کو ملتے ہیں۔مگر اونٹوں کی کشتیاں اور پہلوانوں کا دنگل عوام الناس کے پسندیدہ اور دلچسپ مشاغل ہیں۔چاند کی 16تاریخ کو ضلع مظفر گڑھ کا ڈپٹی کمشنر میلے کا دورہ کرتا ہے اور جیتنے والے اونٹوں پہلوانوں اور کھلاڑیوں میں انعام تقسیم کرتا ہے۔اور انسانی تفریح کے دوسرے ثقافتی کھیلوں میں لکی ایرانی سرکس ہمیشہ یہاں آکر اپنے کرتب دکھاتی ہے اور کئی سفری چڑیا گھر‘تھیٹرز‘چڈول‘موت کے کنویں پتلی تماشہ اور مداریوں کے مجامع بھی لگتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ماضی میں عنایت حسین بھٹی اور عالم لوہار بھی اپنی اپنی تھیٹرز کمپنیوں کے ہمراہ یہاں آکر اپنی سحر انگیز آواز کا جادو جگایا کرتے تھے‘حضرت نور شاہ ؒ قلندر کا یہ میلہ تھل کی تہذیبی و ثقافتی روایات کا امین ہے‘محبت اور امن وآشتی کا پیغام دیتا ہے اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو تفریح کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
جبکہ میلہ دیکھنے اور میلہ کمانے کیلئے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں اور خانقاہ شریف کے ارد گرد لمبے چوڑے بازار سجائے جاتے ہیں۔مٹھائی کی دوکانیں‘ تھڑے‘روٹی اور چائے کی ہوٹلیں اور روز مرہ ضروریات کی مختلف اشیاء کی دوکانیں سجی ہوتی ہیں جہاں خوب خرید و فروخت ہوتی ہے‘ اور اونٹوں کی خریدو فروخت کیلئے یہاں ایک بہت بڑی منڈی لگتی ہے‘جہاں آر پار سے آئے ہوئے اونٹ بکتے ہیں۔میلہ کے موقعہ پر کشتی لڑانے سے پہلے مالکان اپنے اونٹ دربار کے دروازہ پر لے آکر مٹھائی تقسیم کرتے اور اپنی اپنی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔قلندرؒ باد شاہ کے دربار پر عقیدت مندوں کی آمد و رفت کا سلسلہ میلے کے علاوہ باقی ایام میں بھی جاری وساری رہتا ہے۔لوگ بڑی عقیدت سے دربار کے اندر جا کر زیارت کرتے ہیں اور دعا ء کے ہاتھ اٹھا کر گڑ گڑاتے اور مرادیں مانگتے ہیں۔
دربار پر منتوں مرادوں کا سلسلہ:
جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مرادیں پوری ہو جائیں تو عقیدت مند قافلوں کی صورت میں آپ کے دربار پر آکر حاضری دیتے ہیں اور اپݨی اپݨی منّت ”اٹّا گھٹّہ“ دینے کی رسم ادا کرتے
ہیں۔ تھل کے لوگوں کی اکثریت بابا نور شا ہ ؒقلندر سے انتہائی عقیدت و محبت رکھتی ہے۔یہاں تک کہ جب کوئی معاملہ قسم قسمیّت پر آ جائے تو مشتبہ شخص از روئے قسم دربار نور شاہ کا کنڈا کھڑکا دیتا ہے جبکہ مدعی اور ثالث بغیر کسی حجّت کے اس کی صفائی قبول کر کے اسے بے گناہ تصور کرتے ہیں۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کے افکار و نظیریات کو سمجھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرماوے۔آمین ثم آمین
Comments
Post a Comment